Saturday, April 26, 2025

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) میں آ کر اقتداء کرے اور امام فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو کیا مقتدی بھی فوراً کھڑا ہو جائے گا یا پہلے التحیات مکمل کرے گا؟

 

نماز میں قعدہ اولیٰ و اخیرہ کے دوران شامل ہونے والے مقتدی کا حکم – ا

اکثر لوگ اس اہم مسئلے سے ناواقف ہیں، حتیٰ کہ بعض ائمہ اور خواص بھی اس میں غلطی کر جاتے ہیں

سوال نمبر

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اولیٰ (پہلے تشہد) میں آ کر اقتداء کرے اور امام فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے، تو کیا مقتدی بھی فوراً کھڑا ہو جائے گا یا پہلے التحیات مکمل کرے گا؟

جواب

مقتدی کو لازم ہے کہ پہلے "التحیات" مکمل کرے، پھر کھڑا ہو۔

اگر وہ امام کے ساتھ فوراً کھڑا ہو جائے اور التحیات نہ پڑھے، تو اس کی نماز مکروہ تحریمی ہو جائے گی۔

 یہ حکم فرض نماز اور تراویح دونوں کے لیے ہے۔

سوال نمبر

اگر کوئی شخص امام کے قعدہ اخیرہ (آخری تشہد) میں شامل ہو اور بیٹھتے ہی امام سلام پھیر دے، تو کیا وہ فوراً کھڑا ہو جائے یا پہلے التحیات مکمل کرے؟

جواب

اس مقتدی پر واجب ہے کہ وہ اطمینان سے التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو کر بقیہ نماز پوری کرے۔

اگر وہ فوراً کھڑا ہو جائے اور التحیات نہ پڑھے تو اس کی نماز بھی مکروہ تحریمی ہو گی۔

 حوالہ: شامی، جلد 1، صفحہ 296

حالت       مقتدی کا حکم

قعدہ اولٰی میں امام کے ساتھ شامل ہوا         التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو

قعدہ اخیرہ میں امام کے ساتھ شامل ہوا        امام کے سلام کے بعد التحیات مکمل کرے، پھر کھڑا ہو

 عوامی غفلت

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر لوگ ان دونوں مواقع پر التحیات مکمل نہیں کرتے، بلکہ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نماز مکروہ تحریمی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک اہم دینی مسئلہ ہے جس کا سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

 دعا

اَللّٰهُمَّ فَقِّهْنَا فِي الدِّينِ

"اے اللہ! ہمیں دین کی سمجھ عطا فرما۔"

محمد ابوعبیدہ

Friday, April 25, 2025

بچپن میں نکاح، بالغ ہونے پر والدین کا انکار — کیا عدالت اسے ختم کر سکتی ہے؟

 

بچپن میں نکاح، بالغ ہونے پر والدین کا انکار — کیا عدالت اسے ختم کر سکتی ہے؟

سوال

اگر بچپن میں والدین نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی لڑکے سے کر دیا، اور بعد میں خاندان میں اختلاف یا ناراضی کی وجہ سے وہ رشتہ برقرار رکھنا نہ چاہیں،

اب جبکہ لڑکی بالغ ہو چکی ہے اور لڑکا ابھی نابالغ ہے، تو کیا عدالت سے رجوع کر کے اس نکاح کو ختم کرایا جا سکتا ہے؟

 جواب

صورتِ مسئولہ میں

اگر نابالغ بیٹی کا نکاح اس کے والد نے کیا ہو

تو ایسا نکاح شرعاً معتبر اور منعقد ہو جاتا ہے۔

 ایسا نکاح "ولایت" کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور شریعت نے والد یا دادا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نابالغ اولاد کا نکاح ان کی بہتری کے پیشِ نظر کر سکتے ہیں۔

 بالغ ہونے کے بعد نکاح ختم کرنے کا اختیار؟

جب بیٹی بالغ ہو جاتی ہے تو اسے نکاح سے انکار کا اختیار (خیارِ فسخ) نہیں رہتا — اگر نکاح والد نے کیا ہو، اور اس میں واضح نقصان یا بددیانتی کا پہلو نہ ہو۔

اسی طرح عدالت کو بھی اس شرعی نکاح کو ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔

 نکاح شرعی طور پر قائم ہو چکا ہے، اور اب اس کو صرف شرعی طریقے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے — عدالت کے فیصلے سے نہیں

 فتاویٰ شامی کا حوالہ

"ولزم ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا لم يعرف منهما سوء الاختيار..."

(الطلاق، ج:3، ص:54)

یعنی

 

"اگر ولی (والد یا دادا) ہو، اور ان سے سوء اختیار (غلط فیصلہ) معروف نہ ہو، تو نکاح لازم ہو جاتا ہے، چاہے فریقِ ثانی میں کمی ہو یا کفو نہ ہو۔"

 طلاق کا اختیار نابالغ کو نہیں

چونکہ لڑکا ابھی نابالغ ہے، اس لیے وہ شرعاً طلاق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔

 پھر حل کیا ہے؟

لڑکے کی بلوغت کا انتظار کیا جائے۔

پھر اگر دونوں فریقین راضی نہ ہوں، تو باہمی مشاورت سے معاملہ سلجھایا جائے۔

خاندان کے معزز، باخبر، دیندار افراد اس میں رہنمائی کریں۔

 اس مسئلہ کا حل شرعی مشاورت اور صبر و حکمت سے نکالا جائے۔

 مفتی محمد شریف فاروقی (عفی عنہ)      

کیا رفع الیدین پوری زندگی سنتِ رسول ﷺ رہا؟ یا آخری ایام میں ترک کر دیا گیا؟

 

کیارفع الیدین پوری زندگی سنتِ رسول ﷺ رہا؟ یا آخری ایام میں ترک کر دیا گیا؟

الجواب۔۔!!!

دین اسلام کے شرعی مسائل قسمیں کھا کر، جذباتی انداز اپناتے ہوئے یا خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر ثابت نہیں کیے جاتے۔

اسلام کا دین قرآن، سنت اور ماہرین شریعت کے دلائل پر قائم ہے، نہ کہ جھوٹی قسموں یا ظاہری جذباتی مناظر پر۔

 رفع الیدین — دونوں عمل احادیث سے ثابت

نماز میں رفع الیدین رکوع سے پہلے اور بعد میں احادیث مبارکہ سے ثابت ہے،

اور ساتھ ہی اس کا ترک کرنا (یعنی نہ کرنا) بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طریقے سنت سے ماخوذ ہیں، اور کسی ایک طریقے کو مطلقاً باطل قرار دینا علمی خیانت اور ظلم ہے۔

 ائمہ کرام کا مؤقف

 امام اعظم ابوحنیفہؒ

اور

 امام مالکؒ

دونوں جلیل القدر ائمہ فرماتے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے آخری ایام میں رفع الیدین کرنا چھوڑ دیا تھا۔

 امام دارالہجرت کا تاریخی موقف

امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول نہایت اہم ہے

"میں صحیح حدیث کے مقابلے میں اہلِ مدینہ کے عمل کو حجت مانتا ہوں۔ میں نے جب سے اہلِ مدینہ کو دیکھا کہ وہ رفع الیدین نہیں کرتے، تو مجھے یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری ایام میں یہ عمل ترک فرما دیا تھا۔"

یاد رہے

مدینہ منورہ وہ شہر ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کا قیامِ آخر رہا۔

امام مالکؒ 93 ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔

یہ وہ زمانہ ہے جسے خیرالقرون کہا گیا — صحابہ کرامؓ کا دور۔

مدینہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے معتبر علمی مرکز تھا، جہاں تابعین، تبع تابعین، محدثین اور اہلِ علم کی بڑی جماعت موجود تھی۔

 کوفہ کا علمی مقام

بعد ازاں

حضرت عثمان غنیؓ،

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ

اور حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہ نے کوفہ کو اپنا مرکز بنایا۔

یہی وہ کوفہ ہے جہاں بعد میں

امام اعظم ابوحنیفہؒ جیسے عظیم فقیہ پیدا ہوئے۔

اور یہاں بھی رفع الیدین کا عمل جاری نہ رہا۔

 اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امت کے دو عظیم علمی مراکز — مدینہ اور کوفہ — دونوں میں ترکِ رفع الیدین کا رجحان غالب رہا۔

ایک شرعی سوال

جب دو جلیل القدر ائمہ، ایک محدث اور ایک فقیہ یہ فرما رہے ہوں کہ رفع الیدین ترک کیا گیا

تو آج ایک شخص، جو شرالقرون (یعنی سب سے کم فاضل زمانہ) میں رہ رہا ہے، وہ محض قسمیں کھا کر اور جذبات دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ

"رفع الیدین تو رسول اللہ ﷺ نے پوری زندگی کیا ہے" —

تو اس کا یہ طرز علمی دیانت کے خلاف اور دینی فہم سے خالی ہے۔

 دعا

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دینِ اسلام کی صحیح سمجھ، اعتدال، علمی دیانت اور اخلاص عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

 مفتی محمد شریف فاروقی (عفی عنہ

نماز کے دوران کسی کو مخاطب کر کے کہنا: "جلدی کریں، میں باہر انتظار کر رہا ہوں" — شرعاً کیسا ہے؟

 

نماز کے دوران کسی کو مخاطب کر کے کہنا: "جلدی کریں، میں باہر انتظار کر رہا ہوں" — شرعاً کیسا ہے؟

الجواب

صورتِ مسئولہ میں یہ عمل مکروہ ہے۔

اگرچہ اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی، لیکن بلا ضرورت دوسروں کو مخاطب کرنا اور ان کی نماز میں مداخلت کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ نماز ایک عظیم عبادت ہے جس میں خشوع و خضوع مطلوب ہے۔ ایسے کلمات اور مداخلتیں نمازی کی توجہ ہٹا دیتی ہیں۔

 اس عمل کے نقصانات

 نمازی کی توجہ بٹ جاتی ہے

جب کوئی شخص دورانِ نماز یہ بات سن لیتا ہے کہ "میں باہر انتظار کر رہا ہوں، جلدی کریں" — تو وہ بار بار اس جملے کے بارے میں سوچتا ہے۔

 نماز میں جلد بازی پیدا ہوتی ہے

بعض اوقات نمازی اس دباؤ میں آ کر نماز جلدی جلدی پڑھ لیتا ہے، جس سے خشوع و خضوع ختم ہو جاتا ہے۔

 بلا ضرورت مداخلت عبادت کے آداب کے خلاف ہے

جب کوئی شخص بلا کسی ایمرجنسی صرف اپنی سہولت کے لیے دوسرے کی عبادت میں دخل دیتا ہے، تو یہ روحِ عبادت کے خلاف ہے۔

 کب جائز ہو سکتا ہے؟

اگر واقعی کوئی ایمرجنسی یا مجبوری ہو (جیسے گاڑی نکلنے والی ہو، مریض کی حالت خراب ہو، وغیرہ)، تو نرم لہجے میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد مخاطب کیا جائے۔

نماز کے دوران مخاطب کرنا کسی حال میں بھی مناسب نہیں۔

نماز کے دوران دوسروں کو مخاطب کرنا یا اُن پر جلدی کا دباؤ ڈالنا مکروہ عمل ہے۔ اگرچہ اس سے نماز باطل نہیں ہوتی، لیکن نماز کی روح اور ادب متاثر ہوتا ہے۔

یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو قضاء عمری کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ قضاء نمازوں کی کثرت ہو تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب وقتی نمازوں کے ساتھ کیسے رکھی جائے؟ آئیے اس سوال کا واضح اور تفصیلی جواب جانتے ہیں

 

قضاءعمری کرتے ہوئے وقتی نماز پہلے پڑھی جائے یا قضاء نماز؟

یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو قضاء عمری کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ قضاء نمازوں کی کثرت ہو تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب وقتی نمازوں کے ساتھ کیسے رکھی جائے؟ آئیے اس سوال کا واضح اور تفصیلی جواب جانتے ہیں

جواب

فقہی اصولوں کی روشنی میں اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی شخص قضاء نماز پہلے پڑھے یا وقتی نماز — دونوں طریقے درست ہیں۔

 تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے وقتی نماز ادا کی جائے، تاکہ اس کا وقت نہ نکلے اور وہ خود بھی قضاء نہ ہو جائے۔ اس کے بعد قضاء نماز پڑھی جائے، تاکہ دونوں نمازیں ادا ہو سکیں اور ترتیب بھی برقرار رہے۔

علماء کرام نے قضاء نمازوں کی کثرت کے پیشِ نظر آسانی کے لیے یہ مشورہ دیا ہے

"ہر وقتی نماز کے بعد ایک قضاء نماز پڑھ لی جائے، تاکہ قضاء نمازوں کا بوجھ بتدریج کم ہو جائے۔"

یہ محض مشورہ ہے، کوئی شرعی فرض یا لازم نہیں۔ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق قضاء نمازوں کا نظم بنا سکتا ہے۔

 ممنوعہ اوقات میں قضاء نماز کا حکم

ایسے اوقات جن میں نفل نماز بھی ممنوع ہے،

 مثلاً

نمازِ فجر کے بعد طلوع آفتاب تک

نمازِ عصر کے بعد غروب آفتاب تک

ان اوقات میں مسجد میں قضاء نماز پڑھنا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے گناہ (ترکِ نماز) کا اظہار ہوتا ہے، جو شریعت میں پسندیدہ نہیں۔

 لہٰذا ان اوقات میں قضاء نماز تنہائی میں یا گھر پر ادا کی جائے۔

اجازت والے اوقات میں قضاء نماز

نمازِ ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد چونکہ نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے،

لہٰذا ان اوقات میں قضاء نماز مسجد یا گھر، کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

 خلاصہ

قضاء یا وقتی نماز پہلے پڑھنے میں شرعی طور پر وسعت ہے۔

بہتر یہ ہے کہ پٓہلے وقتی نماز پڑھی جائے۔

قضاء نمازوں کے لیے روزانہ ایک ترتیب بنانا آسانی کا ذریعہ ہے۔

ممنوعہ اوقات میں قضاء نماز مسجد میں نہ پڑھی جائے۔

دیگر اوقات میں قضاء نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی سچی توبہ اور باقاعدہ قضاء کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Wednesday, April 23, 2025

نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا حکم – ایک تفصیلی وضاحت

 

نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا حکم – ایک تفصیلی وضاحت

 سوال

اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو، تو کیا اس کے آگے سے گزرنا جائز ہے؟ مسجد چھوٹی ہو یا بڑی، کیا دونوں کا حکم یکساں ہے؟ اور اگر نمازی کے آگے کوئی آڑ ہو تو کیا حکم ہوگا؟

جواب (شرعی رہنمائی)

چھوٹی مسجد یا مکان میں گزرنا: اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو، تو چھوٹی مسجد (یعنی چالیس شرعی گز سے چھوٹی جگہ) یا چھوٹے کمرے میں اس کے آگے سے گزرنا شرعاً ناجائز ہے، چاہے فاصلے پر ہی کیوں نہ ہو۔

سترہ (آڑ) کا حکم: اگر نمازی کے آگے کوئی آڑ ہو، جیسے

ایک گز شرعی کے برابر اونچی

ایک انگلی کے برابر موٹی کوئی چیز

تو اس آڑ کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔

لیکن نمازی اور آڑ کے درمیان سے گزرنا بھی ناجائز ہے۔

بڑی مسجد یا کھلے میدان میں حکم: اگر نمازی کھلی جگہ یا بڑی مسجد (چالیس شرعی گز یا اس سے بڑی) میں نماز پڑھ رہا ہو، تو اس سے اتنے فاصلے پر گزرنا جائز ہے کہ نمازی کو نظر نہ آئے۔

فقہاء نے اس کا اندازہ دیا ہے: نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک۔

احادیث میں سخت وعیدیں: نبی کریم ﷺ نے فرمایا

"اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو معلوم ہو کہ اس پر کیا وبال ہوگا، تو وہ چالیس (سال/دن/مہینے) کھڑا رہنا گوارا کرے، مگر نہ گزرے۔" (صحیح بخاری)

 اقوال فقہاء

فتاویٰ شامی

"چھوٹے مکان یا مسجد میں نمازی کے آگے سے گزرنا ہر حال میں ایک ہی جگہ گزرنے کے مترادف ہے، لہٰذا ناجائز ہے۔"

تقريرات الرافعی

"اگرچہ گھر یا مسجد بڑی ہو، پھر بھی حکم چھوٹے پر قیاس کیا جائے گا جب تک وہ واقعی وسیع نہ ہو۔"

واللہ اعلم بالصواب

کاریگر اور سامان پر چھپ کر منافع لینا – شرعی حکم کیا ہے

 

کاریگر اور سامان پر چھپ کر منافع لینا – شرعی حکم کیا ہے؟

سوال

اکثر کاریگر جب کسی گاہک کے لیے مارکیٹ سے سامان خرید کر لاتے ہیں (مثلاً دروازے، رنگ، یا دیگر تعمیراتی سامان)، تو وہ سامان کی اصل قیمت سے زیادہ رقم وصول کرتے ہیں، جبکہ گاہک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اصل قیمت کیا تھی۔ کیا یہ عمل شرعاً درست ہے؟

الجواب

چھپ کر منافع لینا ناجائز ہے: اگر کاریگر مارکیٹ سے جو سامان خریدتا ہے، اس کی اصل قیمت سے زیادہ وصول کرتا ہے بغیر گاہک کو بتائے، تو یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس طرح کی کمائی میں برکت نہیں ہوتی، اور یہ دھوکہ شمار ہوتا ہے۔

شفاف طریقہ کیا ہے؟ کاریگر کے لیے بہتر یہ ہے کہ جب وہ سامان خریدے، تو اس کا بل (رسید) گاہک کو دے دے یا قیمت واضح کر دے۔ اس کے بعد وہ اسی قیمت پر سامان دے، نہ کہ اس میں چھپ کر اضافہ کرے۔

منافع لینا جائز کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر کاریگر پہلے ہی گاہک سے یہ بات کر لے کہ

"میں آپ کے لیے سامان لاؤں گا، لیکن اس پر اپنی محنت یا وقت کے حساب سے منافع لوں گا"، اور گاہک اس پر راضی ہو جائے،

تو یہ صورت شرعاً جائز ہے۔ کیونکہ یہ ایک باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوگا۔

📜 اسلام ہر معاملے میں دیانت داری اور شفافیت کی تعلیم دیتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

نکاح کے وقت مہر نہ دینے کی نیت – کیا نکاح جائز ہوگا؟

 

نکاح کے وقت مہر نہ دینے کی نیت – کیا نکاح جائز ہوگا؟

سوال

ایک عورت نے کئی سال بعد اپنے شوہر سے مہر کا مطالبہ کیا، جس پر شوہر نے جواب دیا کہ جب نکاح ہوا تھا، تب بھی اس کی نیت مہر ادا کرنے کی نہیں تھی، اور اب بھی وہ مہر نہیں دینا چاہتا، چاہے عورت معاف کرے یا نہ کرے۔ عورت بھی مہر معاف کرنے کو تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا نکاح جائز ہے یا نہیں؟ جبکہ دونوں کے درمیان کئی بچے بھی ہو چکے ہیں۔

جواب

اس سوال کا جواب مفتی محمد کفایت اللہ رحمہ اللہ نے بڑے واضح انداز میں دیا ہے، جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہے

نکاح درست اور جائز ہے: شوہر کی نیت مہر نہ دینے کی ہو یا اس نے زبان سے کچھ نہ کہا ہو، اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نکاح ایک باقاعدہ معاہدہ ہے جو گواہوں اور ایجاب و قبول کے ذریعے مکمل ہوتا ہے، اور مہر اس کا لازمی حق ہے۔ نیت میں خلل نکاح کو ناجائز یا فاسد نہیں بناتا، البتہ یہ نیت خود ایک گناہ کی بات ہے۔

شوہر گناہگار ہوگا: اگر شوہر نے شروع سے ہی مہر نہ دینے کا ارادہ کر رکھا تھا، تو یہ اس کے لیے گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: "مسلمان اپنی بات اور وعدے کا پابند ہوتا ہے"۔ نکاح میں مہر کا وعدہ بھی ایک دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔

مہر کی ادائیگی واجب ہے: عورت کا مہر مانگنا بالکل درست ہے اور اس کا حق ہے۔ شوہر پر شرعاً لازم ہے کہ وہ مہر ادا کرے، خواہ اب عورت معاف کرے یا نہ کرے۔ معافی صرف عورت کی رضا پر موقوف ہے، شوہر کے انکار سے اس کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔

نکاح صحیح ہے۔

شوہر گناہگار ہے کہ اس نے نیت میں خیانت کی۔

مہر ادا کرنا شوہر پر لازم ہے، چاہے وہ دینا نہ چاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

Tuesday, April 22, 2025

اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے: "میں تم سے فارغ ہوں"، تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ اور اگر ہاں، تو دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

 

لفظ "فارغ" سے طلاق واقع ہوتی ہے؟ اور رجوع کا کیا طریقہ ہوگا؟

سوال

اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے: "میں تم سے فارغ ہوں"، تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ اور اگر ہاں، تو دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے بیوی سے کہا: "میں تم سے فارغ ہوں" تو یہ کنایہ کے الفاظ میں طلاق ہے، اور جب نیت طلاق کی ہو — جیسا کہ عام طور پر ایسے الفاظ میں ہوتی ہے — تو ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے۔

 طلاقِ بائن کا مطلب

رشتۂ نکاح ختم ہو جاتا ہے۔

شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں رہتا۔

اگر دونوں دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو نیا نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

 دوبارہ نکاح کا طریقہ

باہمی رضامندی سے۔

نیا نکاح اور نیا مہر۔

عدت (اگر عدت باقی ہو) کے بعد نکاح کیا جائے۔

چونکہ یہ طلاق بائن ہے، اس لیے بغیر نئے نکاح کے ساتھ رہنا حرام اور ناجائز ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

اگر کوئی شخص نفلی صدقے کے طور پر یا قربانی کے طور پر جانور ذبح کرتا ہے، تو کیا اس کا سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے؟ یا کچھ حصہ اپنے استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے؟

 

کیانفلی صدقہ یا قربانی کے جانور کا سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری ہے؟

سوال

اگر کوئی شخص نفلی صدقے کے طور پر یا قربانی کے طور پر جانور ذبح کرتا ہے، تو کیا اس کا سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے؟ یا کچھ حصہ اپنے استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں واضح رہے کہ

نفلی صدقہ کے جانور اور قربانی کے جانور کا سارا گوشت صدقہ کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے۔

جتنا گوشت صدقہ کرے گا، اسی قدر ثواب حاصل ہوگا۔

باقی گوشت (جیسے سری، پائے، کلیجی، یا گوشت کے دیگر حصے) اگر بچ جائے، تو اسے اپنے بچوں کو کھلانا یا خود استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

یہ بات اسلامی تعلیمات کی سہولت اور اعتدال پر مبنی حکمت کا مظہر ہے۔

🔹 خلاصہ

نفلی قربانی یا صدقہ میں پورا گوشت صدقہ کرنا لازم نہیں۔بچوں کو کھلانے، گھر میں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

جتنا صدقہ کرے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنا ہی اجر ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

کیا نماز وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت سے پہلے "الله اکبر" کہنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ کیا یہ سنت ہے یا واجب؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟

 

نماز وتر میں دعائے قنوت سے پہلے تکبیر کہنا کیسا ہے؟

سوال

کیا نماز وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت سے پہلے "الله اکبر" کہنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ کیا یہ سنت ہے یا واجب؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟

جواب

نماز کے دوران ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کے لیے "تکبیر" یعنی "الله اکبر" کہنا سنت ہے۔ اسی اصول کے تحت وتر کی نماز کی تیسری رکعت میں قرأت سے فراغت کے بعد دعائے قنوت سے پہلے تکبیر کہنا بھی سنت ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ

سنت پر عمل ہو جائے۔

قرأت (جو رکن ہے) اور دعائے قنوت (جو دعا ہے) کے درمیان امتیاز قائم ہو جائے۔

یہ تکبیر قنوت کے آغاز پر کہی جاتی ہے اور رفع یدین کے ساتھ کہی جاتی ہے۔ گویا یہ تکبیر صرف ذکر نہیں بلکہ ایک علامت بھی ہے کہ اب نماز ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔

📚 بعض فقہاء کرام کی رائے

بعض جلیل القدر فقہاء نے اس تکبیر کو واجب قرار دیا ہے، کیونکہ نماز کے اجزاء کی ترتیب، وقار اور ہیئت کو محفوظ رکھنا اہم ہے۔

لہٰذا، اگر کوئی شخص دعائے قنوت سے پہلے تکبیر نہیں کہتا تو سنت ترک کرنے کا مرتکب ہوتا ہے، اور اگر اس رائے کو اختیار کیا جائے جس میں اسے واجب کہا گیا ہے، تو سہو کا سجدہ بھی لازم آ سکتا ہے۔

وتروں کی تیسری رکعت میں قرأت کے بعد "الله اکبر" کہہ کر دعائے قنوت شروع کرنا سنت مؤکدہ ہے اور بعض کے نزدیک واجب بھی۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس سنت پر عمل کیا جائے تاکہ نماز کی درستگی اور حسن بھی برقرار رہے۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے، تو شریعت کے مطابق اس طلاق کا کیا حکم ہوگا؟ کیا رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے؟

 

 

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے، تو شریعت کے مطابق اس طلاق کا کیا حکم ہوگا؟ کیا رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی موقع پر تین طلاقیں دے دی ہیں، تو شریعت کے مطابق اس کی تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیوی پر "تین طلاق مغلظہ" واقع ہو چکی ہیں، جس کے بعد وہ عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے۔

اب شریعت کا حکم یہ ہے کہ

وہ عورت اپنے شوہر سے فوراً علیحدہ ہو جائے۔

عدت (تین حیض یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک) گزارے۔

عدت کے بعد وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔

اگر دوسرا شوہر وفات پا جائے یا طلاق دے دے اور وہ عورت اس کی عدت بھی گزار لے، تو پھر اس کے بعد وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔

ارشادِ ربانی ہے

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾

(البقرة: 230)

ترجمہ

"پھر اگر وہ (تیسری بار) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔"

(بیان القرآن)

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

"ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، وہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد طلاق یافتہ ہو گئی، نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا: کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں! جب تک دوسرا شوہر اس سے ازدواجی تعلق نہ رکھے، جیسے پہلے شوہر نے رکھا تھا۔"

 (صحیح بخاری)

اسی طرح أحکام القرآن للجصاص میں ہے

"کتاب، سنت اور سلف کا اجماع اس بات پر ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں تو وہ واقع ہو جاتی ہیں، اگرچہ ایسا کرنا گناہ ہے۔"

(أحکام القرآن للجصاص، 1/529، قدیمی)

لہٰذا، اس صورت میں پہلا شوہر رجوع نہیں کر سکتا، اور رجوع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہو گی۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

اگر کوئی شخص حالتِ احرام میں ہو اور اُس کے بدن سے خون نکل آئے، مثلاً کسی زخم کی وجہ سے یا پچھنے لگوانے سے، تو کیا اس پر کو ئ دم یا صدقہ واجب ہوگا؟

 اگر کوئی شخص حالتِ احرام میں ہو اور اُس کے بدن سے خون نکل آئے، مثلاً کسی زخم کی وجہ سے یا پچھنے لگوانے سے، تو کیا اس پر کو ئ  دم یا صدقہ واجب ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر حالتِ احرام کے دوران کسی شخص کے بدن سے خون نکل آئے تو اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوتا، نہ ہی صدقہ لازم ہوتا ہے، کیونکہ ایسی صورت میں شریعت نے اس پر کوئی کفارہ مقرر نہیں کیا۔

جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے

"ولا بأس ‌للمحرم ‌أن ‌يحتجم أو يفتصد أو يجبر الكسر أو يختتن"

(یعنی: محرم کے لیے حرج کی بات نہیں اگر وہ پچھنے لگوائے، فصد کرے، ہڈی جڑوائے یا ختنہ کروائے)

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ احرام میں ایسی طبی ضرورت کی چیزیں جائز ہیں اور ان پر کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد ابوعبیدہ