Monday, February 17, 2025

ایک طالبہ ہے جو خود صاحبِ نصاب نہیں، لیکن اس کا شوہر مالدار ہے۔ کیا وہ زکوۃ کے پیسوں سے اپنی تعلیمی ضروریات، جیسے کتابیں وغیرہ خرید سکتی ہے؟

سوال:

ایک طالبہ ہے جو خود صاحبِ نصاب نہیں، لیکن اس کا شوہر مالدار ہے۔ کیا وہ زکوۃ کے پیسوں سے اپنی تعلیمی ضروریات، جیسے کتابیں وغیرہ خرید سکتی ہے؟


الجواب:

اگر طالبہ خود صاحبِ نصاب نہیں ہے، یعنی اس کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ اتنا مال نہیں جو ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، تو وہ شرعی طور پر مستحقِ زکوۃ ہے۔ ایسی صورت میں وہ زکوۃ کے پیسوں سے اپنی تعلیمی ضروریات، جیسے کتابیں وغیرہ خرید سکتی ہے، بشرطیکہ وہ زکوۃ کی رقم خود مالک بنے اور اس کے بعد اس رقم کو اپنی ضروریات میں خرچ کرے۔


دلیل:

فقہِ حنفی کے مطابق زکوۃ کی درستگی کے لیے ضروری ہے کہ مستحقِ زکوۃ کو زکوۃ کا مال بطورِ ملکیت دیا جائے، یعنی وہ اس کا مکمل مالک بن جائے۔ چنانچہ اگر طالبہ خود زکوۃ کی رقم کی مالک بنے اور پھر اپنی مرضی سے تعلیمی اخراجات میں خرچ کرے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔


فقہ کی کتب میں ہے:

"وشرط التمليك"

(در مختار مع رد المحتار، 2/347)


یعنی زکوۃ دینے کے لیے یہ شرط ہے کہ مستحق کو اس کا مالک بنایا جائے۔


لہٰذا، اگر یہ شرط پوری ہو تو طالبہ زکوۃ کی رقم سے اپنی تعلیمی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔


واللہ اعلم بالصواب

ابو عبید

کلمہ (کلما) کی قسم اور اس کے شرعی احکامThe Oath of "Kalma (كلما)" and Its Islamic Rulings

 کلمہ (کلما) کی قسم اور اس کے شرعی احکامکلمہ (کلما) کی قسم اور اس کے شرعی احکام


سوال:

ایک شخص نے قسم کھائی کہ "میں آئندہ یہ گناہ ( یعنی فلاں )نہیں کروں گا، اگر میں نے یہ گناہ کیا تو مجھے کلما کی قسم، کلما سے اس کی مراد یہی تھی جس سے نکاح کروں اس کو طلاق۔" اب اس شخص نے وہ گناہ کر لیا جس کی اس نے قسم کھائی تھی۔ اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب:

واضح رہے کہ عام طور پر لوگوں میں جو "کلما" کی قسم مشہور ہے، جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ قسم کھانے والا جب نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب قسم کھانے والا اس طرح الفاظ کہے:

"جب جب میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔"


ایسی صورت میں قسم کھانے والا شخص جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے گا تو فوراً اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی، اور نتیجتاً اس شخص کے نکاح میں کوئی عورت باقی نہیں رہے گی۔ یہی اصل "کلما" کی قسم ہے، جو شرعی اعتبار سے اپنا مستقل حکم رکھتی ہے۔


لیکن اگر اس نے اس طرح قسم کھائی کہ:

"میں کلما کی قسم کھاتا ہوں۔"

تو یہ قسم شریعت میں معتبر نہیں ہے، یعنی اس طرح قسم کھانے سے اس پر نہ کوئی قسم کے شرعی احکام مرتب ہوں گے اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی، چاہے اس لفظ کے ذریعے قسم کی نیت ہی کیوں نہ کی ہو، کیونکہ شریعت میں قسم کے اندر نیت کا اعتبار نہیں بلکہ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے۔


اب اگر اس شخص نے یہ کہا:

"كلما تزوجت امرأةً فهي طالق"

(جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں، وہ طلاق ہو)


اور وہ اب نکاح کرنا چاہتا ہے، تو اس کا شرعی حیلہ اور طریقہ یہ ہے کہ:

کوئی دوسرا شخص اس کی اجازت کے بغیر، اس کی غیر موجودگی میں اس کا نکاح کر دے، پھر وہ زبانی طور پر اس نکاح کی اجازت نہ دے اور نہ (زبانی طور پر) اس پر رضامندی کا اظہار کرے، بلکہ عملی طور پر، مثلاً مہر وغیرہ ادا کر کے اجازت کا اظہار کرے، تو یہ نکاح درست ہوگا اور اس پر طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔


فقہِ حنفی کی معتبر کتب میں اس کا ذکر موجود ہے:


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):

(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث.


واللہ اعلم بالصواب

✍ محمد شریف چترالی (عفی عنہ)

شخص جو نمازِ عشاء کے بعد وتر پڑھنا چاہتا ہے، اس کے لیے بہترین وقت کیا ہے

 ایک شخص جو نمازِ عشاء کے بعد وتر پڑھنا چاہتا ہے، اس کے لیے بہترین وقت کیا ہےشخص جو نمازِ عشاء کے بعد وتر پڑھنا چاہتا ہے، اس کے لیے بہترین وقت کونسا ہے؟ کیا وہ عشاء کے فوراً بعد وتر ادا کر سکتا ہے، یا اسے فجر کی اذان سے کچھ دیر پہلے پڑھنا چاہیے؟ نیز، اگر وہ عشاء کی جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب 

وتر کی نماز کا وقت اور اس کا حکم


واضح رہے کہ وتر کی نماز عشاء کی نماز کے تابع ہے، اور عشاء کی نماز کا آخری وقت طلوعِ فجر تک رہتا ہے۔ لہٰذا، وتر کی نماز کو طلوعِ فجر تک مؤخر کیا جا سکتا ہے، لیکن فجر کی اذان سے پہلے اس کا ادا کرنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح تہجد کا وقت بھی طلوعِ فجر سے پہلے تک رہتا ہے، اس لیے تہجد پڑھنے والے شخص کے لیے افضل ہے کہ وہ وتر کو آخر میں ادا کرے۔


حدیثِ مبارکہ


عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اجعلوا آخر صلاتكم بالليل وترا»

(صحیح بخاری و مسلم)


فقہِ حنفی کی روشنی میں


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 361)

(و) وقت (العشاء والوتر منه إلى الصبح، و)


درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 51)

(و) وقت (العشاء والوتر منه) أي غروب الشفق (إلى الصبح) أما أوله فقد أجمعوا على أنه يدخل عقيب الشفق على اختلافهم فيه وأما آخره فلإجماع السلف على أنه يبقى إلى طلوع الفجر


نتیجہ


عشاء کے بعد فوراً وتر پڑھنا جائز ہے۔


اگر کوئی شخص تہجد پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ وتر کو آخری وقت پر مؤخر کر سکتا ہے۔


فجر کی اذان سے پہلے وتر ادا کرنا ضروری ہے، ورنہ وقت نکل جائے گا۔



واللہ اعلم بالصواب 

 مفتی حمد شریف چترالی عفی عنہ


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت و دانائی کا یہ مشہور واقعہ تین یہودی اونت لے کر آپؓ کے پاس آئے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ تقسیمThis famous incident highlights the wisdom and intelligence of Hazrat Ali (RA). Three Jewish men came to him with a dispute regarding the fair division of their camels.

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت و دانائی کا یہ مشہورواقعہ ہے کہ تین یہودی اونت  لے کر آپؓ کے پاس آئے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھتقسیم کا مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنی فراست سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ سب کو انصاف بھی ملا اور کسی کو نقصان بھی نہ ہوا۔

اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اونت تین آدمیوں میں کس طرح تقسیم کی؟ ہر آدمی کو کتنا حصہ ملا؟ اس سوال پر غور فرمائیں اور درست جواب عنایت کریں

الجواب۔۔۔!!!

واضح رہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ مشہور واقعہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ تین آدمیوں میں سترہ اونٹوں کی تقسیم پر جھگڑا ہو گیا۔ وہ انصاف پر مبنی فیصلہ کروانے کے لیے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا:

ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں، جن میں سے ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا (1/2) ہے، دوسرے کا حصہ تہائی (1/3) اور تیسرے کا حصہ کل اونٹوں کا نواں (1/9) بنتا ہے۔ اگر اونٹوں کو ذبح کر کے تقسیم کیا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے آپؓ کوئی ایسی تدبیر بتا دیں کہ اونٹ ذبح کیے بغیر ہمارے درمیان تقسیم ہو جائیں اور ہمارا آپس کا جھگڑا ختم ہو جائے۔"

حضرت علیؓ نے ان تینوں کی بات سننے کے بعد بیت المال سے ایک اونٹ منگوایا اور ان 17 اونٹوں میں شامل کر دیا۔ اب اونٹوں کی کل تعداد 18 ہو گئی تھی۔ آپؓ نے بتائے گئے حصوں کے مطابق اونٹوں کی تقسیم شروع کر دی۔

آپؓ نے پہلے شخص، جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا، اسے 18 اونٹوں کا آدھا یعنی 9 اونٹ دے دیے۔ اس کے بعد آپؓ نے دوسرے شخص، جس کا حصہ تہائی بنتا تھا، اسے 18 اونٹوں کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دیے۔ پھر آخر میں آپؓ نے تیسرے شخص، جس کا حصہ کل اونٹوں میں سے نواں بنتا تھا، اسے 18 اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دیے۔

اس طرح، آپؓ نے اپنی ذہانت اور دانشمندی سے تینوں آدمیوں میں بالترتیب پہلے کو 9، دوسرے کو 6 اور تیسرے کو 2 اونٹ دے دیے، جن کا کل 17 بنتا ہے، اور یوں اونٹ بغیر کاٹے تقسیم ہو گئے۔

جب تقسیم مکمل ہو گئی، تو ایک اونٹ جو بیت المال سے منگوایا گیا تھا، واپس بیت المال بھجوا دیا گیا۔

(خلفائے راشدین، ص: 126 ملخصاً)

واللہ اعلم بالصواب

🏻 مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ

وراثت میں 18 لاکھ روپے کی شرعی تقسیم (Shariah Distribution of 1.8 Million Rupees in Inheritance)

 

وراثت میں 18 لاکھ روپے کی شرعی تقسیم

سوال:

ایک شخص 18 لاکھ روپے چھوڑ کر وفات پا گیا۔ اس کے ورثاء میں آٹھ بیٹے، ایک بیٹی، ایک بیوی اور ایک ماں شامل ہیں۔ شرعی حوالے سے اس ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں

الجواب:

میت کی تجہیز و تکفین کے بعد اگر اس پر کسی کا قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر میت نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ترکے کے ایک تہائی حصے میں پورا کیا جائے گا۔ ان تمام امور کے بعد باقی مال ورثاء میں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

کل ترکہ: 18,00,000 روپے

ورثاء:

ماں (1)

بیوی (1)

بیٹے (8)

بیٹی (1)

شرعی تقسیم:

ماں کا حصہ: 1/6 کے مطابق 3,00,000 روپے

بیوی کا حصہ: 1/8 کے مطابق 2,25,000 روپے

بیٹی کا حصہ: 75,000 روپے

آٹھ بیٹوں کا حصہ: 12,00,000 روپے، ہر بیٹے کو 1,50,000 روپے

واللہ اعلم بالصواب

مفتی محمد شریف فاروقی عفی عنہ

Friday, February 14, 2025

شعبان المعظم کا مہینہ فضیلت و برکت والا ہے۔ اس مہینے میں نفل روزے رکھنے کا معمول عام ہے The month of Sha'ban is full of virtue and blessings. Observing voluntary fasts in this month is a common practice.

 

شعبان میں قضاء روزے رکھنے کا حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شعبان المعظم کا مہینہ فضیلت و برکت والا ہے۔ اس مہینے میں نفل روزے رکھنےکا معمول عام ہے،

 لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مہینے میں قضاء روزے رکھنا بھی جائز ہے؟

الجواب

واضح رہے کہ شعبان المعظم کے مہینے میں قضاء روزے رکھنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے، کیونکہ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اگر پورے سال کسی وجہ سے قضاء روزے نہ رکھے جا سکے، تو یکم رمضان المبارک سے پہلے انہیں رکھ لینا بہتر ہے۔

چنانچہ حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ "أم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا" کا معمول تھا کہ جو روزے رمضان المبارک میں کسی شرعی عذر (حیض وغیرہ) کی وجہ سے رہ جاتے، وہ ماہِ شعبان میں قضاء کر لیتیں۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔

اس سلسلے میں حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے

"میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضاء واجب ہوتی تو میں انہیں شعبان کے علاوہ قضا نہ کر سکتی۔"

 (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب قضاء رمضان فی شعبان، 2: 802، رقم: 1146)

لہٰذا، ماہِ شعبان میں قضاء روزے رکھنا بالکل جائز اور درست ہے، بلکہ ان کو جلد از جلد رکھ لینا افضل ہے تاکہ رمضان المبارک میں بغیر کسی تاخیر کے نئے روزے رکھنے کا موقع ملے۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی محمد شریف چترالی (عفی عنہ)

Thursday, February 13, 2025

پاس انفاس طریقہ ذکر اور لطائف کی حقیقت

پاس انفاس طریقہ ذکر اور لطائف کی حقیقت

  سوال    پاس انفاس ذکر کیا ہے؟ اور لطائف کی تعداد کتنی ہے؟

جواب
تصوف میں ہر سلسلے کا ذکر کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ میں ذکر کا ایک خاص طریقہ "پاس انفاس" کہلاتا ہے۔ اس طریقے میں سالک اپنی سانسوں پر توجہ مرکوز رکھ کر اللہ، اللہ کا ذکر کرتا ہے، تاکہ دل کی یکسوئی حاصل ہو۔ چونکہ یہ ایک باطنی مشق ہے، اس لیے کسی شیخ کی نگرانی میں کرنا بہتر ہوتا ہے۔ خود سے کرنے میں غلطی کا امکان ہوتا ہے، جو روحانی فوائد کی بجائے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

لطائف کی تعداد

صوفیا کے ہاں پانچ لطائف کا تصور پایا جاتا ہے

لطیفہ قلب (دل)

لطیفہ روح (روح)

لطیفہ سر (راز)

لطیفہ خفی (پوشیدہ)

لطیفہ اخفی (سب سے زیادہ مخفی)

یہ لطائف انسان کے باطن میں روحانی ترقی کے مراکز سمجھے جاتے ہیں، جنہیں ذکر اور مراقبے کے ذریعے روشن کیا جاتا ہے۔

دلیل

امام ربانی مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں
"پاس انفاس ذکر سے دل کی غفلت دور ہوتی ہے اور ذکر کی لذت نصیب ہوتی ہے۔"
(مکتوبات امام ربانی، جلد 1، مکتوب 290)

واللہ اعلم بالصواب
مفتی محمد شریف فاروقی عفی عنہم

 


زکوٰۃ کی رقم واپس ملنے کے بعد اس کے استعمال کی شرعی حیثیت

 

زکوٰۃکی رقم واپس ملنے کے بعد اس کے استعمال کی شرعی حیثیت –

سوال

اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق کو دیتا ہے اور وہ مستحق بعد میں وہی رقم بطور ہدیہ (تحفہ) واپس کر دیتا ہے، تو کیا زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ اور اگر یہ رقم کسی ایسے شخص کی مدد کے لیے استعمال کی جائے جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں لیکن رشتہ دار ہے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟

جواب

زکوٰۃ کے ادا ہونے اور اس کے بعد رقم کے دوبارہ مالک بننے کی شرعی حیثیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں

زکوٰۃ کی ادائیگی کا بنیادی اصول

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ..."

(سورۃ التوبۃ: 60)

ترجمہ: "بے شک صدقات (زکوٰۃ) فقراء، مساکین... (دیگر مستحقین) کے لیے ہیں۔"

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ مستحق کے ملکیت میں دینا ضروری ہے۔ جب زکوٰۃ کی رقم کسی فقیر کے حوالے کر دی گئی اور وہ اس کا مالک بن گیا، تو زکوٰۃ کی ادائیگی درست ہو گئی۔

2. مستحق کے ملکیت میں آنے کے بعد زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے

فقہاء کا متفقہ اصول ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ رقم یا مال مستحق کے ملک میں آ جائے۔ جب کوئی فقیر یا مستحق زکوٰۃ کی رقم وصول کر کے اس کا مالک بن جاتا ہے، تو زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے، چاہے وہ بعد میں اس رقم کو جہاں چاہے خرچ کرے یا کسی کو ہدیہ کر دے۔

علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں:

"وإذا دفع الزکاة إلى الفقير تمّ دفع الزكاة، ولا يضرّه ما فعله الفقير بها بعد ذلك."

(بدائع الصنائع، ج 2، ص 51)

ترجمہ: "جب زکوٰۃ فقیر کو دے دی گئی، تو زکوٰۃ ادا ہو گئی، اور اس کے بعد فقیر اس کے ساتھ جو چاہے کرے، اس سے زکوٰۃ دینے والے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔"

فقیر اگر زکوٰۃ کی رقم ہدیہ کر دے، تو وہ عام مال کی طرح ہو جاتی ہے

جب زکوٰۃ مستحق کے قبضے میں چلی گئی اور وہ اس کا مکمل مالک بن گیا، تو اب وہ اس رقم کو کسی کو ہدیہ دے سکتا ہے، چاہے وہ وہی شخص ہو جس نے زکوٰۃ دی تھی۔ اگر زکوٰۃ دینے والے کو وہی رقم تحفے کے طور پر واپس مل جاتی ہے، تو وہ دوبارہ اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اب وہ اپنی مرضی سے اسے کسی بھی جائز مقصد میں خرچ کر سکتا ہے۔

حدیث مبارکہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

"إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى"

(صحیح البخاری، حدیث: 1)

ترجمہ: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی اصل نیت اسے مستحق کے حوالے کرنا ہے۔ جب وہ اس کا مالک بن گیا، تو زکوٰۃ ادا ہو گئی، اس کے بعد اگر وہ اپنی مرضی سے وہی رقم ہدیہ کے طور پر واپس کر دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

4. فقہاء کا قول:

فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:

"ولو أعطى الزكاة لفقيـر، فوهبها الفقيـر له، يجوز ذلك."

(الفتاوى الهندية، ج 1، ص 195)

ترجمہ: "اگر کسی نے زکوٰۃ کسی فقیر کو دی، اور فقیر نے وہی رقم ہبہ (تحفہ) کر دی، تو یہ جائز ہے۔"

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہمفتی

The Correct Way to Place Hands in Qa'dah قعدہ میں ہاتھ رکھنے کا صحیح طریقہ

 

قعدہ میں ہاتھ رکھنے کا صحیح طریقہ

سوال

قعدہ میں ہاتھ رکھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اگر انگلیاں ران پر رکھتے ہوئے گھٹنے کے نیچے چلی جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز میں ہاتھ کی انگلیوں کو حالت رکوع میں کھولا جائے گا اور حالتِ سجدہ میں بند کیا جائے گا، اس کے علاوہ انگلیوں کو اپنی حالت پر حسبِ عادت رکھا جائے گا۔ نیز قعدہ میں انگلیاں رکھنے کا افضل اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کو ران پر اس طرح رکھا جائے کہ گھٹنے کی ابتدا تک انگلیاں آجائیں اور ان کا رخ قبلہ کی جانب ہو، انگلیوں سے گھٹنوں کو اس طرح نہ پکڑا جائے کہ ان کا رخ زمین کی طرف ہوجائے۔

دلائل

📖 سنن أبی داؤد
(957) عاصم بن کلیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
قلت: لأنظرن إلى صلاة رسول الله ﷺ كيف يصلي، فقام رسول الله ﷺ، فاستقبل القبلة فكبر، فرفع يديه حتى حاذتا بأذنيه، ثم أخذ شماله بيمينه، فلما أراد أن يركع رفعهما مثل ذلك، قال: ثم جلس فافترش رجله اليسرى، ووضع يده اليسرى على فخذه اليسرى، وحد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى، وقبض ثنتين وحلق حلقة، ورأيته يقول هكذا، وحلق بشر الإبهام والوسطى وأشار بالسبابة.
(كتاب الصلاة، باب كيف الجلوس في التشهد، ج:2، ص:210، ط: دار الرسالة العالمية)

📖 فتاوی شامی
ويضع يمناه على فخذه اليمنى ويسراه على اليسرى، ويبسط أصابعه مفرجة قليلا جاعلا أطرافها عند ركبتيه، ولا يأخذ الركبة هو الأصح لتتوجه للقبلة.
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج:1، ص:508، ط: سعيد)

📖 رد المحتار
(قوله ولا يأخذ الركبة) أي كما يأخذها في الركوع لأن الأصابع تصير موجهة إلى الأرض خلافا للطحاوي، والنفي للأفضلية لا لعدم الجواز كما أفاده في البحر.
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج:1، ص:508، ط: سعيد)

📖 فتاوی شامی:
(قوله ضاما أصابع يديه) أي ملصقا جنبات بعضها ببعض قهستاني وغيره، ولا يندب الضم إلا هنا ولا التفريج إلا في الركوع كما في الزيلعي وغيره.
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج:1، ص:498، ط: سعيد)

📖 فتاوی شامی:
ويجلس بين السجدتين مطمئنا لما مر، ويضع يديه على فخذيه كالتشهد منية المصلي.
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها، ج:1، ص:505، ط: سعيد)

📌 حاصلِ کلام:
قعدہ میں ہاتھ رکھنے کا افضل طریقہ یہی ہے کہ دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھا جائے، انگلیوں کو زیادہ کھولنے یا گھٹنوں کے نیچے لے جانے کے بجائے ران پر رکھا جائے تاکہ ان کا رخ قبلہ کی طرف رہے۔

📖 فقط واللہ أعلم

Wednesday, February 12, 2025

"Islamic Ruling on Ultrasound" or "Women Seeking Treatment from Male Doctors in Islam" اسلام میں الٹرا ساؤنڈ کا حکم" یا "عورتوں کا مرد ڈاکٹر سے علاج

اسلام میں الٹرا ساؤنڈ کا حکم" یا "عورتوں کا مرد ڈاکٹر سے علاج

سوال
عورتوں کا مردوں سے الٹرا ساؤنڈ کروانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ آج کل اکثر لیبارٹریز میں مرد حضرات الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں، کیا شرعاً ایسا کروانا جائز ہے؟

جواب
اگر طبی ضرورت کے تحت الٹرا ساؤنڈ ناگزیر ہو اور ستر کھولنا لازم ہو، تو عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی خاتون معالج سے ہی الٹرا ساؤنڈ کروائے۔ جب تک خاتون معالج میسر ہو، کسی مرد معالج سے الٹرا ساؤنڈ کروانا جائز نہیں۔

فقہ کی کتب میں اس اصول کو واضح کیا گیا ہے:
"مرد کا عورت کا علاج کرنا بقدرِ ضرورت جائز ہے، تاہم اگر عورت کے لیے کسی خاتون معالج سے علاج کرانا ممکن ہو، تو مرد معالج سے علاج کرانا درست نہیں۔"
(درر الحکام، تفسیر غرر الاحکام، کتاب النکاح، باب علاج الرجال والنساء، 1/314، دار احیاء الکتب العربیہ)

فقط واللہ اعلم


Monday, February 10, 2025

ALL ACTIONS DEPEND ON INTENTIONS .....تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے

 

تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے

   عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بْنِ نُفَيْلِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ رِيَاحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرُطٍ بْنِ رَزَاحٍ بُن عَدِيِّ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيِّ بْنِ غَالِبِ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَ إِنَّمَا لِكُلِّ امْرِيءٍ مَّا نَوى: فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ، وَ مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، اَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ مَتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ. رَوَاهُ إِمَامَا الْمُحَدِثِينَ: أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ بَرْدِزُبةَ الْجُعْفِيُّ الْبُخَارِيُّ وَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ابْنِ مُسْلِمٍ الْقُشَيْرِيُّ النَّيْسَا بُورِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي صَحِيحَيْهِمَا اللَّذَيْنِ هُمَا أَصَحُ الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ

ترجمہ: ”امیر المومنین ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نفیل کے بیٹے وہ عبد العزیٰ کے بیٹے وہ ریاح کے بیٹے وہ عبداللہ کے بیٹے وہ قرط کے بیٹے وہ رزاح کے بیٹے وہ عدی کے بیٹے وہ کعب کے بیٹے وہ لوی کے بیٹے وہ کالی غالب قریشی عدوی کے بیٹے بیان کرتے ہیں

میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوۓسنا  کہ تمام اعمال کی صحت کا دارو مدار بس نیت پر ہے ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ نیت کے مطابق  اسے ملے گا جس شخص کی ہجرت اللہ اور رسول ) کی خوشنودی ) کے . لئے ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف صحیح متصور ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض پر ہے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے۔“  (بخاری، مسلم)

حدیث کی فضیلت

امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ثالث علم والی حدیث فرمایا ہے ۔ (۱) ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایا علماء نے اس حدیث کو مثلث الاسلام کا لقب دیا ہے۔ (۲) اسی طرح امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نصف فقہ کا نام دیا ہے، امام عبد الرحمن بن مهدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مَنْ اَرَادَ أَنْ تُصَلِّفَ كِتَاباً فَلْيَبْتَدِى بِهَذَا الْحَدِیثِ جو بھی ارادہ کرے تصنیف کا اس کو چاہئے کہ وہ اسی  حدیث سے شروع کرے۔   (۳)  

شان ورود حدیث

بعض روایات میں اس حدیث کا پس منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اُم قیس رضی اللہ عنہا نامی عورت کو پیغام نکاح دیا اس عورت نے شرط لگائی کہ جب تک تم ہجرت نہیں کروگے میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس آدمی نےاس عورت کی شرط کو قبول کر کے ہجرت کر لی پھر دونوں کا باہم نکاح ہو گیا۔ مگر اس شخص کا نام مہاجر اُم قیس مشہور ہوگیا     اس عورت کا نام تو قیل رضی اللہ عنہا اور اس کی کنیت ام قیس رضی اللہ عنہا تھی ۔ (۴) اکثر محدثین اس کا نام بھول گئے ہیں۔

نیت کی تعریف

نیت کا لغوی معنی "قصد" یا "ارادہ" ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، نیت ایک ایسا ارادہ ہے جو کسی عمل کے شروع ہونے سے پہلے دل میں موجود ہوتا ہے۔ علماء نے نیت کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:

نیت کی تین اقسام ہیں

نیات یہ نیت کی جمع ہے۔ نیت کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں

تَمْيِيزُ عِبَادِةٍ عَنِ الْعَادَةِ: یعنی نیت کے ذریعہ عبادت کو عادت سے جدا کرنا مثلاً ایک آدمی نماز کی حالت میں کھڑا ہے اگر اس نے نیت کی ہے نماز کی تو وہ نماز ہوگی ورنہ سمجھا جائے گا کہ ویسے ہی کھڑا ہے۔

تَمُيزُ عِبَادَةٍ عَنِ الْعِبَادَةِ: یعنی نیت کے ذریعہ سے ایک عبادت کو دوسری عبادت سے جدا کرنا مثلاً نیت کے ذریعہ سے ظہر اور عصر کی نماز میں فرق کرنا۔

تَمِيزُ مَعْبُودٍ عَنِ الْمَعْبُودِ : یعنی نیت کے ذریعہ ایک معبود کی عبادت سے دوسرے معبود کی عبادت کو جدا کرنا مثلاً کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہے اب اس کی نیت سے معلوم ہوگا کہ اللہ کے لئے پڑھ رہا ہے یا کسی اور معبود کے لئے اللہ کے ہاں وہی عمل قبول ہوگا جو صحیح نیت کے ساتھ کیا جائے

حدیثِ نیت کی عظمت

1. حدیثِ نیت کو اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے

یہ حدیث دینِ اسلام کی جڑوں میں سے ایک ہے۔ امام شافعیؒ نے فرمایا:
"
یہ حدیث علم کے تین بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔" (شرح چہل حدیث ابن رجب)

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
"اسلام کی تمام تعلیمات تین احادیث پر مبنی ہیں: (1) حدیثِ نیت، (2) حدیثِ حلال و حرام، (3) حدیثِ دینِ نصیحت ہے۔"

2. فقہ اور اصولِ حدیث میں حدیثِ نیت کی اہمیت

امام ابو داؤدؒ کہتے ہیں:
"یہ حدیث نصف دین ہے، کیونکہ دین کا دار و مدار نیت اور عمل دونوں پر ہے۔"

امام بخاریؒ نے اپنی صحیح بخاری کی کتاب کا آغاز اسی حدیث سے کیا، جو اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔

نیت کی بنیاد پر اعمال کی تقسیم

نیت کی بنیاد پر تمام اعمال کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(1)خالص دینی اعمال (عبادات)

یہ وہ اعمال ہیں جو محض اللہ کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ۔ اگر ان میں ریا (دکھاوا) شامل ہو جائے تو وہ بے سود ہو جاتے ہیں۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھتا ہے تو وہ عبادت ہوگی۔
  • اگر کوئی شخص لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو وہ ریاکاری ہوگی اوربے فائدہ ہوگی ۔

(2) دنیاوی معاملات جو دینی نیت کے ساتھ کیے جائیں

دنیاوی کام بھی عبادت بن سکتے ہیں اگر ان کی نیت اللہ کی رضا ہو۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص کاروبار کرتا ہے تاکہ وہ حلال کمائے اور اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کرے، تو یہ عبادت ہوگی۔
  • اگر وہ صرف دولت کمانے اور فخر کے لیے کام کرے، تو یہ دنیاوی عمل ہوگا جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

(3) ایسے اعمال جو محض دنیاوی مفاد کے لیے کیے جائیں

یہ وہ اعمال ہیں جو بظاہر اچھے ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کی نیت صرف دنیاوی فائدہ ہو تو وہ آخرت میں بے فائدہ ہو سکتے ہیں۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص علم حاصل کرتا ہے تاکہ وہ دین کی خدمت کرے، تو وہ عبادت ہوگی۔
  • لیکن اگر کوئی شخص علم محض دنیاوی مقام و مرتبہ کے لیے حاصل کرتا ہے، تو وہ اس نیت کے مطابق بدلہ پائے گا۔

نیت کا اثر انسان کے اعمال پر کیسے پڑتا ہے؟

1. عمل چھوٹا ہو لیکن نیت بڑی ہو

اگر نیت خالص ہو تو ایک چھوٹا سا عمل بھی اللہ کے ہاں بہت بڑے اجر کا سبب بن سکتا ہے۔

مثال:

  • ایک شخص راستے سے پتھر ہٹا دیتا ہے، اگر اس کی نیت لوگوں کو تکلیف سے بچانا ہے تو یہ عبادت بن جائے گی۔
  • اگر کوئی شخص پانی پلاتا ہے، لیکن اس کی نیت اللہ کی رضا ہے تو وہ جنت میں داخلے کا ذریعہ بن سکتا ہے، جیسے ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اس کے گناہ معاف کر دیے۔

2. عمل بڑا ہو لیکن نیت خراب ہو

اگر نیت غلط ہو تو ایک بڑا عمل بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص لاکھوں روپے صدقہ دیتا ہے لیکن نیت یہ ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، تو یہ عمل ضائع ہو جائے گا۔
  • اگر کوئی عالم دین لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے درس دیتا ہے، تو اس کا علم اس کے لیے بوجھ بن جائے گا۔

نیت کو خالص کرنے کے طریقے

1. نیت کو مسلسل چیک کرنا

ہر کام سے پہلے، دوران، اور بعد میں اپنی نیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر نیت میں کوئی دنیاوی مقصد آجائے تو فوراً اسے درست کرنا چاہیے۔

2. دعا اور استغفار

ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں خلوص عطا کرے:
"اے اللہ! میرے اعمال کو خالص کر دے اور ریاکاری سے محفوظ رکھ!