Monday, February 10, 2025

ALL ACTIONS DEPEND ON INTENTIONS .....تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے

 

تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے

   عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بْنِ نُفَيْلِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ رِيَاحِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرُطٍ بْنِ رَزَاحٍ بُن عَدِيِّ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَيِّ بْنِ غَالِبِ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَ إِنَّمَا لِكُلِّ امْرِيءٍ مَّا نَوى: فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَ رَسُولِهِ، وَ مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا، اَوِ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ مَتَّفَقٌ عَلَى صِحَّتِهِ. رَوَاهُ إِمَامَا الْمُحَدِثِينَ: أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ بَرْدِزُبةَ الْجُعْفِيُّ الْبُخَارِيُّ وَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ ابْنِ مُسْلِمٍ الْقُشَيْرِيُّ النَّيْسَا بُورِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي صَحِيحَيْهِمَا اللَّذَيْنِ هُمَا أَصَحُ الْكُتُبِ الْمُصَنَّفَةِ

ترجمہ: ”امیر المومنین ابو حفص عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نفیل کے بیٹے وہ عبد العزیٰ کے بیٹے وہ ریاح کے بیٹے وہ عبداللہ کے بیٹے وہ قرط کے بیٹے وہ رزاح کے بیٹے وہ عدی کے بیٹے وہ کعب کے بیٹے وہ لوی کے بیٹے وہ کالی غالب قریشی عدوی کے بیٹے بیان کرتے ہیں

میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوۓسنا  کہ تمام اعمال کی صحت کا دارو مدار بس نیت پر ہے ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ نیت کے مطابق  اسے ملے گا جس شخص کی ہجرت اللہ اور رسول ) کی خوشنودی ) کے . لئے ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف صحیح متصور ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض پر ہے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے۔“  (بخاری، مسلم)

حدیث کی فضیلت

امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ثالث علم والی حدیث فرمایا ہے ۔ (۱) ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایا علماء نے اس حدیث کو مثلث الاسلام کا لقب دیا ہے۔ (۲) اسی طرح امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نصف فقہ کا نام دیا ہے، امام عبد الرحمن بن مهدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مَنْ اَرَادَ أَنْ تُصَلِّفَ كِتَاباً فَلْيَبْتَدِى بِهَذَا الْحَدِیثِ جو بھی ارادہ کرے تصنیف کا اس کو چاہئے کہ وہ اسی  حدیث سے شروع کرے۔   (۳)  

شان ورود حدیث

بعض روایات میں اس حدیث کا پس منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اُم قیس رضی اللہ عنہا نامی عورت کو پیغام نکاح دیا اس عورت نے شرط لگائی کہ جب تک تم ہجرت نہیں کروگے میں تم سے نکاح نہیں کر سکتی۔ چنانچہ اس آدمی نےاس عورت کی شرط کو قبول کر کے ہجرت کر لی پھر دونوں کا باہم نکاح ہو گیا۔ مگر اس شخص کا نام مہاجر اُم قیس مشہور ہوگیا     اس عورت کا نام تو قیل رضی اللہ عنہا اور اس کی کنیت ام قیس رضی اللہ عنہا تھی ۔ (۴) اکثر محدثین اس کا نام بھول گئے ہیں۔

نیت کی تعریف

نیت کا لغوی معنی "قصد" یا "ارادہ" ہے۔ اسلامی اصطلاح میں، نیت ایک ایسا ارادہ ہے جو کسی عمل کے شروع ہونے سے پہلے دل میں موجود ہوتا ہے۔ علماء نے نیت کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:

نیت کی تین اقسام ہیں

نیات یہ نیت کی جمع ہے۔ نیت کی تین قسمیں بیان کی جاتی ہیں

تَمْيِيزُ عِبَادِةٍ عَنِ الْعَادَةِ: یعنی نیت کے ذریعہ عبادت کو عادت سے جدا کرنا مثلاً ایک آدمی نماز کی حالت میں کھڑا ہے اگر اس نے نیت کی ہے نماز کی تو وہ نماز ہوگی ورنہ سمجھا جائے گا کہ ویسے ہی کھڑا ہے۔

تَمُيزُ عِبَادَةٍ عَنِ الْعِبَادَةِ: یعنی نیت کے ذریعہ سے ایک عبادت کو دوسری عبادت سے جدا کرنا مثلاً نیت کے ذریعہ سے ظہر اور عصر کی نماز میں فرق کرنا۔

تَمِيزُ مَعْبُودٍ عَنِ الْمَعْبُودِ : یعنی نیت کے ذریعہ ایک معبود کی عبادت سے دوسرے معبود کی عبادت کو جدا کرنا مثلاً کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہے اب اس کی نیت سے معلوم ہوگا کہ اللہ کے لئے پڑھ رہا ہے یا کسی اور معبود کے لئے اللہ کے ہاں وہی عمل قبول ہوگا جو صحیح نیت کے ساتھ کیا جائے

حدیثِ نیت کی عظمت

1. حدیثِ نیت کو اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے

یہ حدیث دینِ اسلام کی جڑوں میں سے ایک ہے۔ امام شافعیؒ نے فرمایا:
"
یہ حدیث علم کے تین بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔" (شرح چہل حدیث ابن رجب)

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:
"اسلام کی تمام تعلیمات تین احادیث پر مبنی ہیں: (1) حدیثِ نیت، (2) حدیثِ حلال و حرام، (3) حدیثِ دینِ نصیحت ہے۔"

2. فقہ اور اصولِ حدیث میں حدیثِ نیت کی اہمیت

امام ابو داؤدؒ کہتے ہیں:
"یہ حدیث نصف دین ہے، کیونکہ دین کا دار و مدار نیت اور عمل دونوں پر ہے۔"

امام بخاریؒ نے اپنی صحیح بخاری کی کتاب کا آغاز اسی حدیث سے کیا، جو اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔

نیت کی بنیاد پر اعمال کی تقسیم

نیت کی بنیاد پر تمام اعمال کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(1)خالص دینی اعمال (عبادات)

یہ وہ اعمال ہیں جو محض اللہ کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ۔ اگر ان میں ریا (دکھاوا) شامل ہو جائے تو وہ بے سود ہو جاتے ہیں۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھتا ہے تو وہ عبادت ہوگی۔
  • اگر کوئی شخص لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو وہ ریاکاری ہوگی اوربے فائدہ ہوگی ۔

(2) دنیاوی معاملات جو دینی نیت کے ساتھ کیے جائیں

دنیاوی کام بھی عبادت بن سکتے ہیں اگر ان کی نیت اللہ کی رضا ہو۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص کاروبار کرتا ہے تاکہ وہ حلال کمائے اور اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کرے، تو یہ عبادت ہوگی۔
  • اگر وہ صرف دولت کمانے اور فخر کے لیے کام کرے، تو یہ دنیاوی عمل ہوگا جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

(3) ایسے اعمال جو محض دنیاوی مفاد کے لیے کیے جائیں

یہ وہ اعمال ہیں جو بظاہر اچھے ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کی نیت صرف دنیاوی فائدہ ہو تو وہ آخرت میں بے فائدہ ہو سکتے ہیں۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص علم حاصل کرتا ہے تاکہ وہ دین کی خدمت کرے، تو وہ عبادت ہوگی۔
  • لیکن اگر کوئی شخص علم محض دنیاوی مقام و مرتبہ کے لیے حاصل کرتا ہے، تو وہ اس نیت کے مطابق بدلہ پائے گا۔

نیت کا اثر انسان کے اعمال پر کیسے پڑتا ہے؟

1. عمل چھوٹا ہو لیکن نیت بڑی ہو

اگر نیت خالص ہو تو ایک چھوٹا سا عمل بھی اللہ کے ہاں بہت بڑے اجر کا سبب بن سکتا ہے۔

مثال:

  • ایک شخص راستے سے پتھر ہٹا دیتا ہے، اگر اس کی نیت لوگوں کو تکلیف سے بچانا ہے تو یہ عبادت بن جائے گی۔
  • اگر کوئی شخص پانی پلاتا ہے، لیکن اس کی نیت اللہ کی رضا ہے تو وہ جنت میں داخلے کا ذریعہ بن سکتا ہے، جیسے ایک حدیث میں ذکر ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اس کے گناہ معاف کر دیے۔

2. عمل بڑا ہو لیکن نیت خراب ہو

اگر نیت غلط ہو تو ایک بڑا عمل بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

مثال:

  • اگر کوئی شخص لاکھوں روپے صدقہ دیتا ہے لیکن نیت یہ ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، تو یہ عمل ضائع ہو جائے گا۔
  • اگر کوئی عالم دین لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے درس دیتا ہے، تو اس کا علم اس کے لیے بوجھ بن جائے گا۔

نیت کو خالص کرنے کے طریقے

1. نیت کو مسلسل چیک کرنا

ہر کام سے پہلے، دوران، اور بعد میں اپنی نیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر نیت میں کوئی دنیاوی مقصد آجائے تو فوراً اسے درست کرنا چاہیے۔

2. دعا اور استغفار

ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں خلوص عطا کرے:
"اے اللہ! میرے اعمال کو خالص کر دے اور ریاکاری سے محفوظ رکھ!

1 comment: