کلمہ (کلما) کی قسم اور اس کے شرعی احکامکلمہ (کلما) کی قسم اور اس کے شرعی احکام
سوال:
ایک شخص نے قسم کھائی کہ "میں آئندہ یہ گناہ ( یعنی فلاں )نہیں کروں گا، اگر میں نے یہ گناہ کیا تو مجھے کلما کی قسم، کلما سے اس کی مراد یہی تھی جس سے نکاح کروں اس کو طلاق۔" اب اس شخص نے وہ گناہ کر لیا جس کی اس نے قسم کھائی تھی۔ اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
الجواب:
واضح رہے کہ عام طور پر لوگوں میں جو "کلما" کی قسم مشہور ہے، جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ قسم کھانے والا جب نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب قسم کھانے والا اس طرح الفاظ کہے:
"جب جب میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔"
ایسی صورت میں قسم کھانے والا شخص جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے گا تو فوراً اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی، اور نتیجتاً اس شخص کے نکاح میں کوئی عورت باقی نہیں رہے گی۔ یہی اصل "کلما" کی قسم ہے، جو شرعی اعتبار سے اپنا مستقل حکم رکھتی ہے۔
لیکن اگر اس نے اس طرح قسم کھائی کہ:
"میں کلما کی قسم کھاتا ہوں۔"
تو یہ قسم شریعت میں معتبر نہیں ہے، یعنی اس طرح قسم کھانے سے اس پر نہ کوئی قسم کے شرعی احکام مرتب ہوں گے اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی، چاہے اس لفظ کے ذریعے قسم کی نیت ہی کیوں نہ کی ہو، کیونکہ شریعت میں قسم کے اندر نیت کا اعتبار نہیں بلکہ الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے۔
اب اگر اس شخص نے یہ کہا:
"كلما تزوجت امرأةً فهي طالق"
(جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں، وہ طلاق ہو)
اور وہ اب نکاح کرنا چاہتا ہے، تو اس کا شرعی حیلہ اور طریقہ یہ ہے کہ:
کوئی دوسرا شخص اس کی اجازت کے بغیر، اس کی غیر موجودگی میں اس کا نکاح کر دے، پھر وہ زبانی طور پر اس نکاح کی اجازت نہ دے اور نہ (زبانی طور پر) اس پر رضامندی کا اظہار کرے، بلکہ عملی طور پر، مثلاً مہر وغیرہ ادا کر کے اجازت کا اظہار کرے، تو یہ نکاح درست ہوگا اور اس پر طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
فقہِ حنفی کی معتبر کتب میں اس کا ذکر موجود ہے:
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):
(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث.
واللہ اعلم بالصواب
✍ محمد شریف چترالی (عفی عنہ)
No comments:
Post a Comment