حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت و دانائی کا یہ مشہورواقعہ ہے کہ تین یہودی اونت لے کر آپؓ کے پاس آئے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھتقسیم کا مسئلہ درپیش تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنی فراست سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ سب کو
انصاف بھی ملا اور کسی کو نقصان بھی نہ ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اونت تین
آدمیوں میں کس طرح تقسیم کی؟ ہر آدمی کو کتنا حصہ ملا؟ اس سوال پر غور فرمائیں اور
درست جواب عنایت کریں
الجواب۔۔۔!!!
واضح رہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ مشہور واقعہ تاریخ
کی کتابوں میں ملتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ تین آدمیوں میں سترہ اونٹوں کی
تقسیم پر جھگڑا ہو گیا۔ وہ انصاف پر مبنی فیصلہ کروانے کے لیے حضرت علیؓ کی خدمت میں
حاضر ہوئے اور اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا:
”ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں، جن میں سے ایک کا حصہ کل اونٹوں
کا آدھا (1/2) ہے، دوسرے کا حصہ تہائی (1/3) اور تیسرے کا حصہ کل اونٹوں کا نواں
(1/9) بنتا ہے۔ اگر اونٹوں کو ذبح کر کے تقسیم کیا گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس
لیے آپؓ کوئی ایسی تدبیر بتا دیں کہ اونٹ ذبح کیے بغیر ہمارے درمیان تقسیم ہو جائیں
اور ہمارا آپس کا جھگڑا ختم ہو جائے۔"
حضرت علیؓ نے ان تینوں کی بات سننے کے بعد بیت المال سے ایک
اونٹ منگوایا اور ان 17 اونٹوں میں شامل کر دیا۔ اب اونٹوں کی کل تعداد 18 ہو گئی تھی۔
آپؓ نے بتائے گئے حصوں کے مطابق اونٹوں کی تقسیم شروع کر دی۔
آپؓ نے پہلے شخص، جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا، اسے
18 اونٹوں کا آدھا یعنی 9 اونٹ دے دیے۔ اس کے بعد آپؓ نے دوسرے شخص، جس کا حصہ تہائی
بنتا تھا، اسے 18 اونٹوں کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دیے۔ پھر آخر میں آپؓ نے تیسرے شخص،
جس کا حصہ کل اونٹوں میں سے نواں بنتا تھا، اسے 18 اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 2 اونٹ
دے دیے۔
اس طرح، آپؓ نے اپنی ذہانت اور دانشمندی سے تینوں آدمیوں میں
بالترتیب پہلے کو 9، دوسرے کو 6 اور تیسرے کو 2 اونٹ دے دیے، جن کا کل 17 بنتا ہے،
اور یوں اونٹ بغیر کاٹے تقسیم ہو گئے۔
جب تقسیم مکمل ہو گئی، تو ایک اونٹ جو بیت المال سے منگوایا
گیا تھا، واپس بیت المال بھجوا دیا گیا۔
(خلفائے راشدین، ص: 126 ملخصاً)
واللہ اعلم بالصواب
✍🏻 مفتی محمد شریف چترالی عفی عنہ
No comments:
Post a Comment