قضاءعمری کرتے ہوئے وقتی نماز پہلے پڑھی جائے یا قضاء نماز؟
یہ
ایک نہایت اہم سوال ہے جو ان لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جو قضاء عمری کا اہتمام کرنا
چاہتے ہیں۔ قضاء نمازوں کی کثرت ہو تو یہ جاننا ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب
وقتی نمازوں کے ساتھ کیسے رکھی جائے؟ آئیے اس سوال کا واضح اور تفصیلی جواب جانتے
ہیں
جواب
فقہی
اصولوں کی روشنی میں اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی شخص قضاء نماز پہلے پڑھے یا وقتی
نماز — دونوں طریقے درست ہیں۔
تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے وقتی نماز ادا کی جائے، تاکہ اس کا
وقت نہ نکلے اور وہ خود بھی قضاء نہ ہو جائے۔ اس کے بعد قضاء نماز پڑھی جائے، تاکہ
دونوں نمازیں ادا ہو سکیں اور ترتیب بھی برقرار رہے۔
علماء
کرام نے قضاء نمازوں کی کثرت کے پیشِ نظر آسانی کے لیے یہ مشورہ دیا ہے
"ہر وقتی نماز کے بعد ایک قضاء نماز پڑھ لی جائے، تاکہ قضاء
نمازوں کا بوجھ بتدریج کم ہو جائے۔"
یہ
محض مشورہ ہے، کوئی شرعی فرض یا لازم نہیں۔ ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق قضاء
نمازوں کا نظم بنا سکتا ہے۔
ممنوعہ اوقات میں قضاء نماز کا حکم
ایسے اوقات جن میں نفل نماز بھی ممنوع ہے،
مثلاً
نمازِ
فجر کے بعد طلوع آفتاب تک
نمازِ
عصر کے بعد غروب آفتاب تک
ان
اوقات میں مسجد میں قضاء نماز پڑھنا مناسب نہیں، کیونکہ اس سے گناہ (ترکِ نماز) کا
اظہار ہوتا ہے، جو شریعت میں پسندیدہ نہیں۔
لہٰذا ان اوقات میں قضاء نماز تنہائی میں یا گھر پر ادا کی
جائے۔
اجازت
والے اوقات میں قضاء نماز
نمازِ
ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد چونکہ نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے،
لہٰذا
ان اوقات میں قضاء نماز مسجد یا گھر، کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
خلاصہ
قضاء
یا وقتی نماز پہلے پڑھنے میں شرعی طور پر وسعت ہے۔
بہتر
یہ ہے کہ پٓہلے وقتی نماز پڑھی جائے۔
قضاء
نمازوں کے لیے روزانہ ایک ترتیب بنانا آسانی کا ذریعہ ہے۔
ممنوعہ
اوقات میں قضاء نماز مسجد میں نہ پڑھی جائے۔
دیگر
اوقات میں قضاء نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
اللّٰہ
تعالیٰ ہمیں اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی سچی توبہ اور باقاعدہ قضاء کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین۔
No comments:
Post a Comment