Tuesday, April 22, 2025

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے، تو شریعت کے مطابق اس طلاق کا کیا حکم ہوگا؟ کیا رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے؟

 

 

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے، تو شریعت کے مطابق اس طلاق کا کیا حکم ہوگا؟ کیا رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی موقع پر تین طلاقیں دے دی ہیں، تو شریعت کے مطابق اس کی تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیوی پر "تین طلاق مغلظہ" واقع ہو چکی ہیں، جس کے بعد وہ عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے۔

اب شریعت کا حکم یہ ہے کہ

وہ عورت اپنے شوہر سے فوراً علیحدہ ہو جائے۔

عدت (تین حیض یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک) گزارے۔

عدت کے بعد وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کر سکتی ہے۔

اگر دوسرا شوہر وفات پا جائے یا طلاق دے دے اور وہ عورت اس کی عدت بھی گزار لے، تو پھر اس کے بعد وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔

ارشادِ ربانی ہے

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ﴾

(البقرة: 230)

ترجمہ

"پھر اگر وہ (تیسری بار) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔"

(بیان القرآن)

صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

"ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، وہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد طلاق یافتہ ہو گئی، نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا: کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں! جب تک دوسرا شوہر اس سے ازدواجی تعلق نہ رکھے، جیسے پہلے شوہر نے رکھا تھا۔"

 (صحیح بخاری)

اسی طرح أحکام القرآن للجصاص میں ہے

"کتاب، سنت اور سلف کا اجماع اس بات پر ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں تو وہ واقع ہو جاتی ہیں، اگرچہ ایسا کرنا گناہ ہے۔"

(أحکام القرآن للجصاص، 1/529، قدیمی)

لہٰذا، اس صورت میں پہلا شوہر رجوع نہیں کر سکتا، اور رجوع کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہو گی۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد شریف فاروقی عفی عنہ

No comments:

Post a Comment