بچپن
میں نکاح، بالغ ہونے پر والدین کا انکار — کیا عدالت اسے ختم کر سکتی ہے؟
سوال
جواب
صورتِ
مسئولہ میں
اگر
نابالغ بیٹی کا نکاح اس کے والد نے کیا ہو
تو
ایسا نکاح شرعاً معتبر اور منعقد ہو جاتا ہے۔
ایسا نکاح "ولایت" کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور شریعت
نے والد یا دادا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نابالغ اولاد کا نکاح ان کی بہتری کے پیشِ
نظر کر سکتے ہیں۔
بالغ ہونے کے بعد نکاح ختم کرنے کا اختیار؟
جب
بیٹی بالغ ہو جاتی ہے تو اسے نکاح سے انکار کا اختیار (خیارِ فسخ) نہیں رہتا — اگر
نکاح والد نے کیا ہو، اور اس میں واضح نقصان یا بددیانتی کا پہلو نہ ہو۔
اسی
طرح عدالت کو بھی اس شرعی نکاح کو ختم کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔
نکاح شرعی طور پر قائم ہو چکا ہے، اور اب اس کو صرف شرعی طریقے سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے — عدالت کے فیصلے سے نہیں
فتاویٰ شامی کا حوالہ
"ولزم ولو بغبن فاحش أو بغير كفء إن كان الولي أبا أو جدا لم
يعرف منهما سوء الاختيار..."
(الطلاق، ج:3، ص:54)
یعنی
"اگر ولی (والد یا دادا) ہو، اور ان سے سوء اختیار (غلط فیصلہ)
معروف نہ ہو، تو نکاح لازم ہو جاتا ہے، چاہے فریقِ ثانی میں کمی ہو یا کفو نہ ہو۔"
طلاق کا اختیار نابالغ کو نہیں
چونکہ
لڑکا ابھی نابالغ ہے، اس لیے وہ شرعاً طلاق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔
پھر حل کیا ہے؟
لڑکے
کی بلوغت کا انتظار کیا جائے۔
پھر
اگر دونوں فریقین راضی نہ ہوں، تو باہمی مشاورت سے معاملہ سلجھایا جائے۔
خاندان
کے معزز، باخبر، دیندار افراد اس میں رہنمائی کریں۔
اس مسئلہ کا حل شرعی مشاورت اور صبر و حکمت سے نکالا جائے۔
مفتی محمد شریف فاروقی (عفی عنہ)
No comments:
Post a Comment