عورت کا جانور ذبح کرنا – شرعی حکم کیا ہے؟
اسلامی معاشرے میں بعض باتیں روایت کے طور پر مروج ہو
جاتی ہیں، لیکن ہر روایت کا شرعی ہونا ضروری نہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ہے:
🔹
کیا عورت جانور ذبح کر سکتی ہے؟
🔹 کیا ذبح کرنے والے کا مرد ہونا یا کم از کم
چالیس سال کا ہونا ضروری ہے؟
شرعی حکم
اسلام میں جانور ذبح کرنے کے لیے مسلمان، عاقل اور شرعی
طریقہ جاننے والا ہونا شرط ہے۔ مرد ہونا، یا عمر کا چالیس سال سے زائد ہونا کوئی
شرعی شرط نہیں۔
اگر ایک مسلمان عورت شرعی طریقے سے جانور ذبح کرتی ہے
- بسم
اللہ کہتی ہے،
- تیز
دھار آلہ سے ذبح کرتی ہے،
- حلق و
نسوں کو کاٹتی ہے، تو اس کا ذبیحہ بالکل حلال اور جائز ہے۔
اس میں نہ کوئی کراہت ہے، نہ ہی کوئی شرعی قباحت، چاہے وہاں
مرد موجود ہو یا نہ ہو، یا عورت کی عمر چالیس سال سے کم ہو۔
📘 فقہی حوالہ
"ولو الذابح مجنوناً أو امرأة أو صبیاً یعقل التسمیة والذبح
ویقدر"
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۳۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
ترجمہ
اگر ذبح کرنے والا مجنون (پاگل)، عورت یا بچہ ہو، بشرطیکہ
وہ تذکیر (بسم اللہ کہنا) اور ذبح کرنے کا طریقہ جانتا ہو اور اس پر قادر ہو، تو
اس کا ذبیحہ جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں